Saturday 12 September 2015

امتحانامتحانامتحان

یہ کہانی میں نے ایک ڈرامہ جو جیو ٹی وی پر چل رہا تھا "دل ہے چھوٹا سا" اُس سے آیئڈیا لے کر لکھی ہے لکین ذرا اپنے اسٹائل سے اچھی بری فیصلہ آپکا ۔۔۔۔۔۔۔ لکین ڈرامہ تو مست ہے
بھائی یہ آپ کیا بول رہے ہیں آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو۔ عاطف تو بھائی کی بات سن کر ہی تڑپ اُٹھا تھا

بات تھی کچھ ایسی ہی کے اُس کا تڑپنا اتنا بے وجہ بھی نہیں تھا عاطف کی فمیلئ میں صرف وہ اور ایک اُس کا بھائی باقر ہی تھے اماں ابا عاطف کچھ سال پہلے چل بسے تھے۔ باقر اور عا طف کی عمر میں دس سال کو فرق تھا جیس کی وجہ یہ تھی کے باقر کی پئدئیش کے بعد اُن کی اماں کو کچھ کملیکیشنز ہو گئی تھی ڈاکڑں نے لمبا وقفہ دینے کا بولا تھا اس لیے باقر کے پیدا ہونے دس سال بعد عاطف اس دنیا میں ایا تھا ۔عا طف کی عمر اس وقت 25 تھی جب کے باقر کی 35۔ اماں ابا کے مرنے کو بعد عاطف سب چھوڑ چھاڑ باقر کے پاس دوبئی میں ہی آ گیا تھا۔ اماں ابا کی زندگی میں ہی باقر کی شادی اُن کی ایک کزن جس کا نام شمع تھا اور جو باقر کی ہم عمر ہی تھی اُس کے ساتھ کر دی گئی تھی اتفاق یہ تھا کے شمع بھابی کے بھی اماں ابا اب اس دنیا میں نہیں تھے اور اُن کا بہن بھائی بھی کوئی نہیں تھا یعنی اُن تینوں کی کل ملا کر فیملی بس وہی تھے اور ساتھ باقر کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا بیٹی بڑی تھی جو 7 سال کی تھی اور بیٹا پانچ سال کا تھا۔ باقر کی شادی کو ابھی 9 سال ہو گئے تھے۔ ہو کچھ یوں کے۔
کچھ دن پہلے ہی ایک معمول کی لڑائی میں باقر نے شمع کو غصے میں آکر طلاق دے دی تھی۔ جب تک باقر سھبلتا وہ سب کچھ بول چکا تھا اُن کے گھر میں تو مانو سانپ سونگھ گیا تھا۔ شمع کا اس دنیا میں اُن کے علاوہ کوئی نہیں تھا اس لیے وہ جاتی بھی تو کدھر اور اب مسلہ باقر کے بچوں کا بھی تھا ۔ باقر کے ساتھ ساتھ شمع تو پریشا ن تھی ہی لکین عاطف بھی کافی پریشان تھا بچوں کو ابھی تک کچھ پتہ نہیں تھا لکین گھر کا ماحول دیکھ کر وہ بھی کافی سمہے ہوئے تھے۔
باقر نے ایک کسی جاننے والے سے مشورہ لیا تھا اور اُس کے مطابق باقر کی شادی اب ٹوٹ چکی تھی اور اب صرف اسی صورت میں شادی واپس ہو سکتی تھی کے پہلے شمع اپنی عدت پوری کرے اور پھر کسی اور سے شادی کرے اور پھر اُس سے طلاق لے کر واپس عدت پوری کرے اور پھر باقر سے شادی کرے۔اور سب سے ضروری بات کے دوسرے مرد سے صرف نکاح کر کے طلاق نہیں لے سکتے بلکے اُن کو جسمانی تعلق چاہے وہ ایک رات کا ہی کیوں نہ یو بنانا ضروری ہے۔
باقر نے بہت سوچا کے ایسا کون آدمی ہو سکتا ہے جس کو وہ اس کام کے لیے بول سکتا ہے۔
بہت سوچنے کے بعد صرف ایک ہی نام اُس کے ذہن میں آیا تھا اور وہ تھا اُس کا اپنا بھائی عاطف جس پر وہ اعتبار بھی کر سکتا تھا اور جو اُس کے اس بورے وقت میں اُس کے کام بھی آسکتا تھا لکین وہ یہ بات کرنے سے گھبرا رہا تھا کیوں کے اُس کو ریکشن معلوم تھا۔ اور پھر وہی ہوا عاطف اُس کی بات سنتے ہی بھڑک اُٹھا تھا۔
دیکھ میرے بھائی ایک تو ہی تو جس پر میں اعتبار کر سکتا ہوں اگر تم اس بورے وقت میں میرا ساتھ نہیں دو گئے تو اور کون دے گا میں مانتا ہوں میری غلطی ہے اور سزا تم سب لوگوں کو مل رہی ہے لکین میرے بھائی مجھے میری غلظی سدھارنے کو موقع دے ۔ باقر نے عاطف سے منت کرتے ہوئے بولا
لکین بھائی سوری آپ میری جان مانگ لو میری جان خاظر ہے لکین میں یہ نہیں کر سکتا ۔ اُپ خود سوچو میں کیسے کر پاو گا یہ میری بھابی ہیں بہت چھوٹی عمر سے میں اُن اپنا گھر کا ایک بڑا فرد دیکھتا ایا ہوں۔ عاطف نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
باقر نے ہاتھ جھوڑ لیا اور بولا
عاطف میرے ہاتھوں کی طرف دیکھ یار مجھے اور ذلیل ہونے سے بچا لے۔
عاطف کا دل بھی روتے بھائی کو دیکھ کع بھر آیا اور اُس نے اُس کے ہاتھ پکڑ لیے اور بولا
بھائی ایسا مت کرو میرے ساتھ اور تم خود سوچو کیا بھابی کے لیے یہ سب ٹھیک ہو گا وہ کیا یہ سب کر پائے گی۔
باقر بولا ۔ شمع سے بات کر لی ہے میں نے وہ راضی ہے۔
عاطف ہاتھ چھوڑ کر بولا پتہ نہیں تم لوگ کیا چاہتے ہو جو دل میں آتا ہے کرو اور باہر نکل گیا ۔
باقر شمع کے پاس آیا وہ بچوں کے پاس لیٹی ہوئی تھی
ایسا نہیں تھا کے باقر شمع کو پسند نہیں کرتا تھا لکین اُس کو غصہ پر کنٹرول نہیں تھا اور اُس دن بھی اُس نے غصے میں یہ سب بول دیا۔ اُس نے شمع کو بتایا کے عاطف مان گیا ہے۔
اگلے کچھ دنوں میں شمع کی عدت پوری ہوتے ہی عاطف کا نکاح شمع کے ساتھ کر دیا گیا۔۔۔
بچے سو رہے تھے کمر ے میں اور سارے ڈرامے کو اُن سے پوشیدہ رکھا گیا تھا
باقر نے وہ پوری رات انگاروں پر بسر کی ۔ صبع کی اذان شروع ہوئی تو شمع کمرے سے باہر آئی باقر جو باہر ہی بیٹھا تھا اُس کی طرف دیکھنے لگا شمع کو اُس پر غصہ تو بہت تھا لکین وہ اُس کی خالت بھی دیکھ رہی تھی اور یہ
بھی جانتی تھی کے اُسکا اس گھر علاوہ کوئی ٹھکانہ بھی نہیں اس لیے اُس کا ساتھ دے رہی تھی۔وہ باقر کے دیکھنے کا مطلب صاف سمجھ رہی تھی۔
اُس نے بولا۔۔ وہ رات کو جاتے ہی اپنا کمبل لے کر صوفے پر سو گیا تھا۔
باقر بولا ۔ کیا مطلب میں نے تم کو سب سمجھایا بھی تھا
شمع کو بھی غصہ آ گیا وہ آواز کو دباتے ہوئے بولی ۔
تم نے سمجھ کیا رکھا ہے مجھے تم کیا چاہتے تھے مجھ سے میں کیا کرتی وہ میرے سے دس سال چھوٹا ایک بچا ہے جب سے وہ پیدا ہوا ہے میرے لیے ایک بچہ ہی ہے اور اب پچھلے دس سالوں سے میرے لیے وہ میرے شوہر کا چھوٹا بھائی ہے اور تم چاہتے ہو کے میں پہلی ہی رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمع نے آگے بات اُدھوری چھوڑ دی باقر بھی اُس کی مشکل سمجھ گیا تھا پھر دن پر دن گزرتے گے اور کچھ نہ ہوا باقر عاطف سے یہ بات کھل کے کر نہیں سکتا تھا جو بھی تھا شمع اُس کی بیوی رہی تھی اور عاطف جو اب شمع کا شوہر تھا اُس کا چھوٹا بھائی تھا۔ شمع جس سے وہ کھل کے بات کر سکتا تھا اور جس کو وہ بولتا بھی تھا ہر روز وہ ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔
باقر نے بہت سوچا پھر اُس کو اس مسلہ کا ایک ھل ملا اُس نے فجیرہ ( آمارات کی ایک ریاست کا نام ہے جو ایک ہل سٹشین ہے) میں ایک ہوٹل روم سات دن کے لیے بک کیا اور شمع کو بولا تم عاطف کو لے کر اُدھر چلی جاو وہاں جا کر ماحول بدلے گا تو تم لوگوں کے لیے آسان ہو جائے گا شمع نے جب عاطف سے بات کی تو پہلے تو وہ بدک گیا لکین آخر کار مان ہی گیا۔بچوں کو بتایا کے امی اور چچا کچھ ضروری کام کے لیے کہیں جا رہے ہیں ساتھ دن کے لیے۔ُ
وہ لوگ شام کو ہوٹل میں پہنچ گے اپنا سامان روم رکھنے کے بعد کھانا کھانے کے لیے باہر نکل آئے رات کو جب وہ ہوتل پہنچ تو کمرے میں کافی سردی تھی کچھ تو موسم بھی اچھا تھا اور اُپر سے اے سی چل رہا تھا ۔ اب بیڈ پر کمبل بھی ایک ہی تھا عا طف کپرے بدل کر بغیر کمبل کے ہی صوفے پر لیٹ گیا شمع بولی
سردی ہے ادھر ہی آ جاو
عاطف کو بھی محسوس ہو چکا تھا کے کمبل کے بغیر گزارا نہیں وہ اُٹھا اور بیڈ کی ایک سائیڈ پر کمبل کے اندر لیٹ گیا ۔ شمع سوچ رہی تھی کے اب کیسے وہ کرے اُس کو باقر نے عجیب حالات میں پھنسا دیا تھا اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔ پھر اُس نے کمرے کی لائیٹ بند کر دی اور دوسرئ طرف سے وہ
بھی کمبل میں گھس گئی پھر کچھ دیر رکنے کے بعد اُس نے جان بوجھ کر اپنے جسم کا پچھلا حصہ عاطف کے بیک کے ساتھ لگا دیا کچھ دیر تک کو ئی ریکشن نہ ایا تو اُس نے ایسے جیسے سوتا بندہ کروٹ لیتا ہے ویسے ہی کروٹ لی اور عاطف کو پیچھے سے گلے لگا لیا اب اُس کے جسم کا اگلا حصہ عاطف کے جسم کے پچھلے حصہ سے چپکا ہوا تھا ور اُس کی بازو عاطف کے اُپر تھی
دوسری طرف اب جوبھی تھو عاطف تھا تو ایک جوان مرد ہی وہ جاگ رہا تھا اور اُس کے لیے اب یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا وہ ایک جھٹکے سے اُٹھا تبی شمع نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی۔
کیوں کر رہے ہو ایسا جب تم کو پتہ ہے کے ہم کو یہ کرنا ہی پڑے گا اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔
عاطف نے دوسری طرف منہ کر کے ہی بولا۔ بھا۔۔۔۔۔۔ وہ شائید بھابی کہتے کہتے رکا تھا شمع سمجھ گئی وہ بولی ۔
عاطف اب جب تک ہم ایک دوسرے کے نکاح میں ہے میں تماری بیوی ہو اس میں کچھ غلط نہیں ہے ۔
لکین میرے سے نہیں ہو پائے گا یہ سب۔ عاطف نے جواب دیا
اچھا تم ایک منٹ لیٹ جاو ۔شمع نے اُس کو لیٹاتے ہوئے بولا
پھر وہ لیٹ گیا تو شمع نے اُس کے ساتھ لگ کر ایک ہاتھ اُسکے سینے پر رکھا اور ایک ٹانگ اُس کی ٹانگوں پر اور بولی۔
تم کیا سمجھتے ہو میرے لیے یہ سب کرنا کیا آسان ہے لکین اب جب خالات نے ہم کو اس چکر میں ڈال دیا ہے تو کیا کر سکتے ہیں۔ شمع نے یہ بولا اور عاطف کے گال پر چوم لیا عاطف کے تو مانو کانٹے نکل آئے ہوں بیڈ پر ایک دم اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا شمع شرمندگی کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی اُس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرے کیوں کے اُس نے اپنی ساری شرم ایک طرف رکھ کر بڑی ہمت کر کے اپنا قدم بڑایا تھا لکین اب تو وہ اپنی نظروں میں بھی گر گئ تھی عاطف اُس کو ٹھکرا کر چلا گیا تھا۔
وہ ابھی رو ہی رہی تھی کے کمرے کا دروازا واپس کھلا اور عاطف اندر آیا وہ سیدھا بیڈ کی طرف آیا اور آتے ہی اُس نے شمع کو پکڑا اور لیٹا کر چومنا شروع کر دیا۔
پھر اُس نے شمع کی شلوار کو ہاتھ ڈالا اور شلوار کو کھینچ کر نییچے کر دیا
پھر اپنا پجامہ بھی تھوڑا نیچے کر دیا شمع کو اُس کا لن اپنی چوت پر محسوس ہوا کچھ بھی تھا دونوں انسان ہی تھے اب اُن کی سانسوں بڑھنے لگی تھی وہ اب دونوں ہی تیار تھے۔ اس لمھے دونوں صرف ایک دوسرے سے ایک چیز چاہتے تھے اور وہ تھی چدائی۔
عاطف نے اپنا لن پکڑ کر شمع کی چوت پر رگڑا اور شمع کی چوت کافی گیلی ہو چکی تھی عاطف نے لن کو سوراخ پر اندازے سے رکھا اور جٹھکا مارا لن پھسل کے سائیڈ پر ہو گیا کمرے میں اندھیرہ تھا اور ویسے بھئ عاطف نے کمبل اُپر لے لیا تھا ۔عاطف واپس ایک ٹرائی کی لکین پھر نکام ہوا وہ کانپ رہا تھا ۔ شمع نے اُس کو روکا پھر اُس نے ہاتھ اندر کر کے اُس کا لن پکڑا اور چوت کے سوراخ پر رکھ دیا ۔ عاطف نے اس بار دھکا مارا تو لن گہرائی میں آُترتا چلا گیا شمع کے منہ سے ایک سسکاری نکل گئی ۔
باقر دونوں بچوں کی پئدئیش کے بعد بہت کم سکسس کرتا تھا اور اب تو با یہاں تک آ چکی تھی کے کئی کئی مہنے وہ شمع کو چھوتا تک نہین تھا اور جب کبھی چھوتا تھا تو بھی اُس کے لن میں اب وہ دم نہیں رہا تھا۔
شمع کو عاطف کا لن جوانی کی یاد دلانے لگا جب اُس کی باقر کے ساتھ نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ عا طف اب دھکے مار رہا تھا اور شمع نے اُس کو اپنے بازو میں گھیرا ہوا تھا روم میں اُن دونوں کی آوازیں اور پچک پچک دھک دھک کی آواز کھو نج رہیں تھی شمع نے اپنی ٹانگوں کو اُٹھایا اور اور عاطف کی کمر پر رکھ دیا عاطف اب زور زور سے چدائی کر رہا تھا ۔
شمع نے عاطف کو زور سے جھکڑا اور اُس کے کندھے کو دنتوں سے کاٹ لیا اُس کو جب بھی اُرگیزم ہوتا تھا وہ یا تو ناھن مارتی تھی باقر کو یا کاٹ لیتی تھی لیکن اب تو بہت ہی عرصہ ہو گیا تھا اس بات کو پچھلے دو تین سالوں سے شائید ہی شمع کبھی آرگیزم تک پہنچی تھی۔
جب وہ فارغ ہو چکی تو اُس اُس نے عاطف کو چھوڑا عاطف ابھی بھی لگا ہوا تھا اُس کا لن اب بہت ہی پھسل رہا تھا کیوں کے آرگیزم کے بعد شمع کی چوت میں اور زیادہ پانی آ گیا تھا شمع نے اُس کو روکا اور پھر اُس کو تھوڑا اُپر کر کے اپنی پوری شلوار جو اب صرف ایک ٹانگ پر تھی اُتار دی اور عاطف کا بھی پورا پاجامہ اُتار دیا جس میں عاطف نے اُس کی مدد کی لکین کمبل کو اُنھوں نے جسموں پر رہنے دیا ویسے بھی کمرے میں فل اندھیرہ تھا ۔ شمع نے اپنی شلوار سے اپنی چوت صاف کی ۔ اور عاطف کو واپس اشارہ کیا عاطف نے ایک بار پھر اپنا لن اُس کی چوت میں گھسا دیا۔ عاطف کوئی اگلے
دس پندرہ منٹ تک لگا رہا جس کے دروان شمع ایک بار اور فارغ ہو چکی تھی پھر عاطف نے اپنا پانی شمع کی چوت میں چھوڑنا شروع کر دیا ۔
تھوڑی دیر بعد عاطف ایک طرف کو منہ کر کے لیٹ گیا اُس کو اچھا تو لگا تھا مزا بھی آہا تھا لکین اُس کو عجیب شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی۔
دوسری طرف شمع بہت ہی سکون میں تھی اُس بہت عرصہ بعد جسمانی خوشی نصیب ہوئی تھی۔
صبع شمع کی آنکھ کھلی تو عاطف روم میں نہیں تھا اور شمع کے موبئیل کی بیل بج رہی تھی۔ اُس نے نمبر دیکھا باقر کا فون تھا
باقر نے اُس کو پوچھا یوا کچھ ۔
شمع نے کچھ سوچتے ہو ئے بولا۔ نہیں آج تو کچھ نہیں ہوا لکین فکر نہیں کرو میری بات ہو گئی ہے وہ مان گیا ہے کے ساتویں دن کر دے گا ۔
باقر بولا۔ کیوں ساتویں دن کیوں۔
شمع بولی۔ یہ سب تماری ہی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ ان یہ سب کرنا ہمارے لیے اتنا آسان نہیں ہے اگر اتنی جلدی ہے تو خود اپنے بھائی کو فون کر بولو کے کر دے۔
باقر بولا۔ اچھا چلو چھوڑو لکین پلیز اب یہ کام کر کے ہی واپس آنا اگر اب نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہو گا
شہمع بولی۔ کوشش کر رہی ہو نا میں تم بے فکر رہو۔
اُس نے فون بند کر دیا۔
وہ بیڈ سے اُٹھی اور پھر اُس نے کمبل پیچھے کیا اور اپنی شلوار ڈھونڈ کر پہنی ۔ تبی عاطف اندر آیا ۔ وہ اُس کو دیکھ کر شرما گیا تھا۔
شمع کیوں کے کافی مچیور تھی اس لیے وہ جلدی سنھبل گئی تھی۔
وہ بولی کدھر تھے۔
عاطف بولا ۔ ناشتے کا آرڈر دے کر آیا ہوں۔
شمع بولی۔ باقر کا فون آیا تھا اور میں نے بولا ہے کے ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کچھ نہیں ہوا
عاطف نے سر ہلا دیا شمع ہوش ہو گئی یعنی عاطف بھی وہی چاہتا تھا جو وہ چاہتی تھی۔
اُس کو دکھ بھی ہوا کے اُس نے باقر سے جھوٹ بولا لکین اس سب چکر میں پھنسی بھی تو اُس کی وجہ سے تھی اور عاطف اب اُس کا شوہر تھا۔ اس لیے اۃس کے ساتھ سکسس کرنا کوئی بری بات نہیں تھی وہ اندر سے
مطمین ہو گئی ۔وہ سوچ رہی تھی اگر جائز طریقے سے وہ اپنے جسم کی آگ کو کچھ اور دن ٹھنڈا کر سکتی ہے تو مسلئہ کیا ہے۔
دوسرا دن
شمع ایک مکمل گھریلو اور شریف عورت تھی اُس نے اج تک اپنے شوہر سے 

بے وفائی نہیں کی تھی خالانکہ بہت سے مردوں کی طرف سے اُس کو بہت 

بار اشارہ ملا تھا لکین اُس نے ہمشہ اپنے شوہر کو ہی اپنے جسم کا مالک 
سمجھا تھا اور اپنی ہر چیز کو وہ شوہر کی امانت سمجتھی تھی۔
اُس نے زندگی میں پہلی بار اپنے شوہر باقر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کا 
لن اپنے اندر لیا تھا اور وہ بھی اپنے سے دس سال چھوٹے مرد کا اُس کے 
لیے یہ تجربہ بہت ہی زبردست تھا اور وہ بہت خوشی تھی۔ اُس کی جنسی 
تسکین ایسی کبھی نہیں ہوئی تھی جیسی اُس کو کل رات کے ایک جلدی جلدی 
کے سکسس نے دی تھی ۔اب یہ بات کم از کم اُس نے پکی اپنے دماغ میں طہ 

کر لی تھی کے اُس اپنی زندگی کے اگلے سات دن مزا کرنا ہے اُس کو اپنی 
زندگی ان سات دنوں میں کھل کر جینا ہے۔ اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں 
تھا کیونکہ اب عاطف کوئی نامحرم مرد نہیں تھا بلکے اُس کا شوہر تھا۔
دوسری طرف عاطف کے لیے اپنی بڑی بھابھی جو کے اب خالات کی وجہ 
سے اُس کی بیوی تھی کے ساتھ یہ سب کرنا سے مزا تو بہت آیا تھا لکین 
شرمندگی سی ہو رہی تھی وہ بھابھی یعنی شمع سے نطریں نہیں ملا پا رہا تھا 
۔لکین جب صبع شمع نے اُس کو بتایا کے شمع نے باقر بھائی کو بول دیا ہے 

کے ابھی کچھ نہیں ہوا۔ تو اس کو دل میں بہت خوشی ہوئی تھی کیونکے 
رات کے بعد وہ بھی چاہتا تھا کے اُس کو شمع کے ساتھ کچھ اور وقت ملے۔ 
اُس کی ایک گرل فرنیڈ تھی عالیہ جو کے عاطف کی ہی ہم عمر تھی اور 
عاطف اُس کو کئی بار چود چکا تھا ۔ لکین جو مزا اُس کو رات کے تاریکی 
میں اور تھوڑے سے وقت کے لیے شمع کو چود کر آیا تھا ایسا مزا کبھی 
عالیہ کو دن کی روشنی میں چود کر بھی نہیں آیا تھا۔ اس کی وجہ شاید کچھ 
نفسیاتی تھی یا کچھ اور لکین وہ رات کا واقعہ اُس کو آج دن میں بھی گرما 
رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کب رات ہو اور کب وہ دوبارہ شمع کو چودے۔ وہ تو 
شاید دن میں بھی کرنے سے باز نہ آتا لکین ایک تو شمع اُس کی سابقہ بری 
بھابھی تھی اور دوسرا شمع ناشتے کے فورا بعد ہی اُس کو لے کر گھومنے آ 
گئی تھی۔
عاطف تو پہلے بھی کئی بار فیجرہ آ چکا تھا لکین شمع پہلی بار آئی تھی اس 
لیے اُس کو گھومنا تھا ۔ عاطف اُس کو کافی نئی جگہ دیکھا رہا تھا۔
ویسے تو شمع میں بھی اندر سے بے چین تھی لکین وہ بھی تھوڑا کنفیوز تھی 
کیونکے عاطف اُس کا دیور تھا جو کے اُس سے کافی چھوٹا بھی تھا اور طلاق 
کے واقعہ سے پہلے تک وہ ہمشہ اُس کو اپنے چھوٹے بھائی کی نظر سے ہی 
دیکتھی تھی کبھی سوچا بھی نہیں تھا کے اُس کو زندگی ایسا دن بھی دیکھائے 
گی کے وہ اسی کے ساتھ یہ سب کرئے گی۔
خیر وہ پورا دن اُن دونوں نے بہت زیادہ بات چیت نہیں کی بس ادھر اُدھر 
گھومتے رہے ۔ پھر رات کو ہوٹل واپس جانے سے پہلے اُنہوں نے ایک 
پاکستانی ریستوران پر کھانا کھایا اور اب چائے کا انتظار کر رہے تھے ۔ جب 
اچانک عاطف بولا ۔
بھابھی وہ میں یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے ابھی اتنی بات ہی کی تھی کے شمع نے اُس 
کو ٹوکتے ہوئے بولا۔
بھابھی مت بولو ، میں تماری بیوی ہوں بھابھی نہیں۔
عا طف بولا۔ سوری لکین آپ پہلے تھی ۔ اور اب کچھ دنوں بعد واپس میری 
بھابھی ہی بننا ہے اُپ کو تو میں عادت کیوں بدلوں۔ عا طف نے آخری جملہ 
ایسے افسوس سے بولا تھا کے شمع بھی چونک گئی
پھر شمع بولی۔ جب واپس بنو گی تب کی تب دیکھی جائے گی لکین ابھی تو 
تماری بیوی ہوں نہ۔
عا طف بھی چپ کر گیا وہ بات جو وہ بولنے والا تھا وہ تو وہی رہے گئی 
لکین دونوں عاطف کی اُس بات کے بارے میں سوچنے لگے کے"سات دن بعد 
واپس شمع کو اُس کی بھابھی ہی بننا تھا" شمع کو اب عجیب سی بے چینی 
ہونے لگی ۔ وہ سوچنے لگی کے اُس نے بہت بُرا کیا ہے اپنی تھوڑی سی 
جسمانی خوشی کے لیے اُس نے صبع باقر سے جھوٹ بولا اور اگر وہ اب 
برداشت نہیں کر پا رہی تو تب کیا ہو گا جب وہ واپس باقر کی بیوی بن جائے 
گی۔
اسی پریشانی میں دونوں نے اپنی اپنی چائے ختم کی اور ہوٹل آگئے کہاں تو 
وہ دونوں پورا دن رات کا انتظار کر رہے تھے ۔ اور اب دونوں مختلف 
سمتوں کی طرف میں کر کے لیٹے سوچوں میں گم تھے شمع کا دل عجیب سا 
ہو رہا تھا ایک طرف وہ عاطف کے ساتھ انجوائے کرنا چاہتی تھی تو دوسری 
طرف اُس کو باقر یاد آ رہا تھا ۔ وہ یہ سب سوچتے ہی پتہ نہیں کب سو گئی۔
اُس کی آنکھ کھولی تو اُس نے اپنی کمر پر عاطف کا ہاتھ پایا جو اُس کی کمر 
پر آہستہ آہستہ ہل رہا تھا وہ چپ کر کےلیٹی رہی اُس کی جسم میں گرمی
آنے لگی تھی ۔ عاطف نے تھوڑی دیر بعد ہاتھ ہٹا لیا پھر شمع انتطار کرتی 
رہی کے عاطف کچھ کرے لکین عاطف نے واپس کچھ نہیں کیا ۔
ایک گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گیا شمع کو واپس ننید بھی نہیں آئی ۔ اب جسم 
ک بھوک انکھوں کی نیند سے زیادہ تھی۔ لکین عاطف اُس کی بھوک جگا کر 
خود پتہ نہیں سو چکا تھا اُس نے سوچا کیوں نہ چیک کروں وہ سو رہا ہے یا 
جاگ رہا ہے۔
عاطف۔
جی کیاہوا۔ عاطف نے جواب دیا۔ اس کو مطلب تھا وہ بھی اُسی آگ میں جل 
رہا تھا جس میں شمع جل رہی تھی۔
کیا ہوا نیند نہیں آ رہی۔ شمع نے اُس کو پوچھا
آپ بھی تو جاگ رہی ہیں۔ عاطف بولا
پھر شمع نے کروٹ لی اور منہ عاطف کی طرف کر لیا۔ پھر بولی
کیا سوچ رہے ہو۔
عاطف بولا۔ جو سوچ رہا ہوں وہ مجھے گناہ لگتا ہے۔
شمع نے ایک لمبی آہ بھری اس کا اندازہ سہی تھا عاطف بھی اُتنا ہی بے چین 
تھا جتینی وہ تھی، بات سمجھ میں بھی آتی تھی وہ ایک ایسی جگہ پر تھے 
جہاں اُن کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا اور سکسس کی بھوک دونوں کے اندر 
جاگ چکی تھی لکین دیور تھی تو صرف اُن کا سابقہ رشتہ جو اُن کو سب 
حدیں پار کرنے سے روک رہا تھا۔
لکین پھر شمع کا صبر جواب دے گیا اُس نے عاطف کا ہاتھ پکڑا اور اپنی کمر 
پر رکھ کر اُس کے پاس ہو کر اُس کو اپنے ساتھ لگا لیا ۔عاطف بھی اپنے اندر 
کی جنگ سے ہار چکا تھا اور اُس نے بھی دیر نہیں لگائی اور شمع کو پکڑ کر 
اپنے ساتھ دبا لیا۔
عاطف نے اپنے ہونٹوں کو شمع کے ہونٹوں پر رکھ کر شمع کے ہونٹوں 
چوسنا شروع کر دیا اندھیرے میں وہ صرف ایک دوسرے کی سانسوں کی 
آوازیں ہی سن سکتے تھے دیکھنا بہت مشکل تھا کچھ بھی صاف نظر نہیں آ 
رہا تھا صرف ایک عکس ہی نظر آ رہا تھا
عاطف نے اپنا ایک ہاتھ شمع کے ممے پر رکھ دیا اُسکے ممے بہت بڑے 
تھے۔ اُتنے ہی بڑے جتینے ایک سات سال کے بچے کی صخت مند ماں کے 
ہو سکتے تھے۔ شمع دیکھنے میں کافی خوبصورت تھی گوری چٹی ۔ شادی 
کے وقت وہ کافی سمارٹ بھی تھی لکین جیسے جیسے بچے ہوتے گے اور
عمر بڑھتی گئی اُس کا وزن بھی برھتا گیا اور اب اُس کا فگر کافی بڑا تھا ۔ 
وہ 40 کا برا پہنتی تھی اُس کی کمر اُس کی 36 انچ تھی اور گانڈ اُس کی 
42 انچ کی

تھی۔ ویسے تو کافی مردوں کو بڑی عمر کی موٹی عورتوں میں کشش 

محسوس ہو تی ہے ۔ لکین اُس کے چہرے میں اتنی معصومیت اور کشش تھی 

کے اگر کسی کو موٹی عورت پسند نہیں بھی تھی تو اُس کو بھی شمع ضرور 

پسند آ جاتی تھی۔ اُس کا جسم موٹا ضرور تھا لکین لٹکا ہوا نہیں تھا سخت 

جسم تھا یعنی وہ موٹی صحت مند ہونے کی وجہ سے تھی۔ بیماری کی وجہ 

سے موٹاپا نہیں تھا۔
قد لمبا ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ موٹی لگتی بھی نہیں تھی اُس کا جسم بلکل 

اداکارہ صائمہ کی طرح کا تھا۔
عاطف کو اُس کے ممے کو ہاتھ میں لے کر بہت مزا آیا اور شمع کے لیے 

بھی یہ بہت خوش کن احساس تھا ۔ عاطف اُس کے ممے کو دباتا رہا اور اُس 

کے ہونٹوں کو چوستا اور کاٹتا رہا ۔
کچھ دیر جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ایسی خالت میں رہے تو ۔ شمع 

نے ہاتھ بڑھا کر اپنا ہاتھ عاطف کے لن پر رکھا تو وہ تنا ہوا تھا ۔ عاطف نے 

سونے کے لیے شلوار پہنی ہوئی تھی۔ شمع نے شلوار کے اُپر سے ہی اُس کا 

لن ہاتھ میں لیا ۔ کل شائید جوش کی وجہ سے یا جلد بازی کی وجہ سے شمع 

نے اپنے اندر لینے کے باوجود محسوس نہیں کیا تھا لکین آج ہاتھ میں لینے 

کے بعد آس کو احساس ہو رہا تھا کے عاطف کا لن کافی بڑا تھا باقر سے اور 

موٹا بھی لگ رہا تھا اُس کے دل میں شدید تمنا ہوئی اُس کا لن دیکھنے کی 

لکین نسوانی شرم نے اُس کو روکے رکھا ۔
شمع کی لن پکڑنے والی حرکت نے عاطف کے رگوں میں خون کی رفتار تیز 

کر دی تھی ۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور شمع کے اُپر آگیا اُس نے شمع کے 

ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کی گردن کو چومتا ہوا اُس کی سینے کی طرف آ 

گیا پھر اُس نے شمع کے مموں کو کمیض کے اُپر سے ہی چومنا شروع کیا ۔ 

شمع کو جب اُس کی سانسس اور اُس کے ہونٹوں نرم لمس اپنے مموں پر 

محسوس ہوا تو اُس کی منہ سے بلکل ہلکی آواز میں ایک سسکاری نکل گئی 

اور اُس کی سانسسوں کی رفتار اور بڑھ گئی۔ سانس تیز ہونے کی وجہ سے 

اُسکے مموں نے بھی واضع طریقے سے اُپر نیچے ہونا شروع کر دیا۔
اب عاطف نے چومتے ہوئے اُس کے پیٹ کی طرف جانا شروع کیا ۔ تب ہی 

شمع کی ہمت جواب دے گئی ۔ وہ بولی۔
عاطف شروع کرو پلیز
عاطف نے اپنا منہ اُس کے پیٹ سے اُٹھایا اور پھر ہاتھ نیچے کر کے اُس 

نے شمع کی شلوار اُتار دی شمع نے اپنا جسم اُٹھا کر اُس کا ساتھ دیا تھا۔
عاطف کا بہت دل چاہا کے وہ شمع کی کمیض بھی اُتار دے لکین اُس نے 

سوچا پتہ نہیں شمع کو برا نہ لگے ۔ اس لیے وہ اپنی خواہش کے باوجود اس 

کام سے باز رہا ۔
پھر عاطف نے اپنے کپڑے آتار نے شروع کیے ۔آج اُس نے اپنی شلوار کے 

ساتھ ساتھ اپنی کمیض بھی اُتار دی تھی خود وہ پورا ننگا ہو گیا تھا۔ پھر وہ
شمع کے اُپر آگیا۔ شمع نے اُس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیا ۔ عاطف 

اپنا لن اُس کے چوت کے لبوں پر رگڑ رہا تھا شمع اُس کی ہر رگڑ پر اپنی 

چوت کا منہ کھولتی تھی اور اُس کے جسم کو اپنے بازوں میں دباتی تھی 

شمع کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔
شمع کی چوت پانی سے تر تھی اور عاطف کا لن اُس کے پانی میں بھیگ چکا 

تھا لکین عاطف اُس کی خالت کا مزا لے رہا تھا ۔ وہ اپنے لن کو بار بار اُس 

کے چوت کے لبوں پر اور اُس کے کلیٹ(چھولے) پر رگڑتا تھا لکین اندر 

نہیں ڈالتا تھا ۔
کیا مار دو گے ۔ کیوں ٹرپا رہے ہو ۔ شمع کی ہمت جواب دے گئی
کیا کروں اُپ بولو گی تو کروں گا نہ۔ عاطف بھی مزا لینے کے موڈ میں تھا۔
وہی کرو جو کل کیا تھا۔ شمع نے سسکاری لیتے یو ئے بولا
کل کیا تھا لکین مجھے تو یاد نہیں کچھ بھی۔ عاطف اُس کے گال کو چومتے 

ہوئے بولا
پلیز عاطف اندر ڈالو۔ شمع اس بار چلا اُٹھی
عاطف مسکرا پڑا یہی وہ سننا چاہ رہا تھا اُس نے اپنا لن چوت منہ پر رکھا 

اور ایک زور کا دھکا مارا ۔ لن کھڑپ کر کے چوت کی گہرائی میں اُترتا گیا ۔
شمع کے منہ سے ایک لمبی سسکاری نکل گئی ۔ لن سیدھا جا کر اُس کی بچے 

دانی پر لگا تھا ۔ جس سے اُس کو تھوڑا درد بھی ہوا تھا کیوں کے عاطف نے 

بہت زور سے ڈالا تھا لکین سسکاری درد کی نہیں اُس مزے کی تھی جو اُس 

کو ملا تھا۔
عاطف نے اب آگے پیچھے ہونا شروع کر دیا اُس کی سپیڈ آج سٹارٹ سے ہی 

بہت تیز تھی ۔ وہ ٹھک ٹھک اندر باہر کر رہا تھا اور شمع بھی اُس کا پورا 

ساتھ نیچے سے ہل ہل کر اور چوت کو گھول گھول گھوما کر دے رہی رتھی ۔ 

عاطف نے آج نوٹ کیا تھا ۔ عالیہ جو کے ایک کنوری اور جوان لڑکی تھی 

اور شمع میں کیا فرق تھا ۔ سب سے بڑا فرق یہ تھا کے عالیہ چدوا کر مزا 

لینا چاہتی تھی جب کے شمع اپنے تجربہ کی وجہ سے مرد کو مزا دے کر 

اُس پھر ڈبل مزا لینا جانتی تھی۔
شمع کی نیچے سے ہلنے کی رفتار بڑھنے لگی اور اُس کی سانسوں نے بھی 

اور تیز چلنا شروع کر دیا اُس نے اچانک عاطف کے سر کو پکڑا اور اُور اُس 

کو اپنے ساتھ لگا کر اُس کے کندھے میں اپنے دانٹ گاڑھ دئے عاطف بھی 

سمجھ گیا وہ فارغ ہو رہی ہے اُس نے بھی دھکوں کی رفتار اور تیز کر دی ۔ 

وہ پورا لن باہر کی طرف کینھچتا اور پھر فل رفتار سے اندر ڈالتا شمع کچھ 

دیر بعد نارمل ہو گئی اُس کو پہلا ارگیزم ہو گیا تھا ۔ اُس نے عاطف کو 

رُکنے کا بولا عاطف اُس کے اُپر ہی لیٹا رہا اُس نے اپنا لن باہر نکال لیا تھا 

شمع نے تھوڑی دیر بعد اُس کو ایک طرف ہونے کا بولا اور پھر اُس نے اپنی 

چوت سائیڈ ٹیبل ہر پڑے ایک ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر صاف کی ۔ آج بھی 

کمرے میں اندھیرا ہی تھا ۔ لکین آج وہ کل سے تھوڑا ایزی تھے اس لیے 

کافی اگے پیچھے خرکت کر رہے تھے بلکے تھوڑی بہت بات چیت بھی کر 

رہے تھے۔
شمع نے چوت صاف کر کے بولا۔
آ جاو
عاطف بولا ۔ آپ آلٹا لیٹو۔
شمع بولی ۔ کیوں پیچھے کرنا ہے۔
عاطف بولا۔ نہیں آگے ہی کرو گا لکین پیچھے سے
شمع اُلٹا لیٹ گئی ۔ عاطف اُس کے پیچھے آ گیا اُس نے شمع کی ٹانگوں کو 

کھولا اور پھر اپنا آپ اُن کے درمیان اڈجسٹ کیا اور پھر اپنا لن اُس کی چوت 

کو ڈھونڈ کر اُس پر رکھا اور جٹھکا مارا لن اندر گھس گیا شمع کے منہ سے 

سسکاری نکلی اس بار یہ سسکاری درد کی ہی تھی کیوں کے اُلٹا لیٹ کر لن 

اُس کئ چوت کے اگلے حصے سے رگڑ کر گیا تھا اور چوت نے ابھی پانی 

نہیں چھوڑا تھا کیوں کے ابھی صاف کی تھی تو اُس کو تھوڑی تکلیف ہوئی 

تھی۔
شمع کی گانڈ کیوں کے کافی بڑی اور نرم تھی اور پھیلی ہوئی تھئ عاطف کو 

بہت اچھی محسوس ہو رہی تھی وہ دیکھ تو نہیں پا رہا تھا واضع لکین 

محسوس کر رہا ےتھا اُس نے اپنے لن اُس کی چوت میں تھوڑی دیر رُوک دیا 

اور اُس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔پھر اُس نے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کی 

گانڈ کی لائن میں اپنی انگلی پھیری۔ شمع کو اُس کی اس خرکت نے بہت مزا 

دیا اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں تکیے کو مظبوطی سے جکڑ لیا۔ اُس کی چوت 

پھر سے گیلی ہو گئی تھی۔
عاطف نے پھر اُس کی گانڈ سے ہاتھ اُٹھا اور بیڈ پر شمع کے دونوں طرف 

رکھ کر دھکے مارنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد شمع نے ٹانگوں کو اور کھول دیا 

اب وہ
ایسے لیٹی تھی جس سے عاطف بہت ہی آسانی سے آگے پیچھے ہو سکتا تھا 

اُس نے ایک ہاتھ سے شمع کے بالوں کو پکڑا اور اُس کے سر کو ایک طرف 

کیا اب اُس کے منہ کا ایک طرف یعنی ایک گال عاطف کے منہ کے بلکل 

نیچے تھا عاطف نے اُس کے کان کو منہ میں لیا اور چوما اور ہلکا ہلکا کاٹا 

شمع ایک بار پھر ارگیزم کی طرف بڑھ رہی تھی اُس نے تکیے کو بری طرح 

سے اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہو تھا اور سانسسوں کی آواز بہت تیز نکل رہی 

تھی ۔ عاطف نے اپنی رفتار اور تیز کر دی وہ بھی انزال کے قریب ہی تھا 

اُس نے شمع کے کان میں کہا۔
میں چھوٹنے والا ہوں۔
شمع کے منہ سے ٹوٹے الفاط نکلے اُس کی سانس اتنی تیز تھی کے عاطف 

اُس کے الفاط تو نہ سمجھ سکا لکین وہ بات سمجھ گیا ۔ شمع نے بولا تھا 

چھوٹ جاو میں بھی قریب ہی ہوں۔
عاطف اب بہت زیادہ تیز ہو گیا اُس نے دونوں ہاتھوں کو واپس بیڈ پر رکھا 

ہوا تھا اور فل رفتار سے اندر باہر کر رہا تھا اچانک شمع نے اپنی گانڈ کو 

اسیے اُپر کو اُٹھایا جیسے اگر کسی کو آگے کی طرف کو کچھ مارا جائے تو 

وہ پیچھے کو ہوتا ہے۔ شمع کے اس انداز سے اور شمع کی چوت نے جسیے 

عاطف کے لن کو جکڑا تھا اُس سے عاطف کو اندازہ ہو گیا تھا کے شمع 

چھوٹ گئی تھی۔
شمع کے چھوٹنے کے ساتھ ہی وہ بھی اپنا پانی اُس کی چوت میں پھنکنے لگا 

۔پھر وہ اُس کی بیک پر اُس کے اُپر ہی لیٹ گیا دونوں ہی بہت لمبے سانسس 

لے رہے تھے۔
آپ کا ارگیزم بہت ظالم ہوتا ہے۔ عاطف نے تھوڑی دیر بعد بولا۔
شمع کچھ بولی نہیں صرف شرمندہ سی ہو گئی۔ عاطف کو اُس کا ارگیزم یعنی 

انزال پر پہنچنے پر جو ردعمل اُسکی طرف سے آتا تھا واقعہ ہی دلچسپ لگا 

تھا اُس نے کل اور آج پہلی بار اُس کے کندھے کو جس طرھ کاٹا تھا جس 

وقت وہ کاٹتی تھی اُس وقت تو عاطف کو بھی محسوس نہیں ہو تا تھا لکین بعد 

میں پتہ چلتا تھا اور پھر آج دوسری بار میں شمع نے جس طرح سے گانڈ 

آُٹھائی تھی اور جس طرح اُس نے اپنے جسم کو خرکت دی تھی ایسا لگ رہا 

تھا جسیے اُس کے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ عاطف جان گیا تھا کے شمع 

بہت ہی گرم عورت تھی ۔ اُس نے کافی دفعہ سکس کیا تھا عالیہ کے ساتھ 

اور اُس سے پہلے بھی کئی بار کیا تھا لکین شمع جیسی گرم عورت نہیں ملئ 

تھی ۔ یا شائید پہلے کبھی کوئی عورت ملی ہی نہیں تھی کیوں کے وہ سب 

لڑکیاں ہی تھیں شائید یہی فرق تھا ایک شادی شدہ 35 سال کی عورت کا اور 

ایک کنوری 23،24 سال کی لڑکی کا۔

بھائی بہت خوش قسمت ہے کے آپ اُن کو ملیں۔ عاطف کچھ دیر بعد بولا
لکین اس خساب سے تو تم ابھی خوش قسمت ہو کے میں تماری بیوی ہوں اور 

ابھی تمارے نیچھے بھی ہوں۔ شمع نے ہنس کر جواب دیا تو عاطف بھی ہنس 

پڑا اور پھر شمع کے اُپر سے اُتر کر ایک طرف لیٹ گیا۔

تیسرا دن


عاطف کی آنکھ کھلی تو باہر سے روشنی اندر آرہی تھی دن نکل چکا تھا ۔

شمع ابھی تک سو رہی تھی عاطف نے اُس کو غور سے دیکھ اُس کو شمع پر

بہت پیار آیا وہ بڑے مطمین انداز میں سو رہی تھی ۔
عاطف اُٹھا اور واش روم میں چلا گیا ۔ ہاتھ منہ دوھونے کے بعد جب وہ واش

روم سے باہر آیا تو اُس کی نظر بیڈ پر پڑی ۔
شمع ابھی تک سو رہی تھی لکین اُس نے اپنا رُخ بدلا ہوا تھا اُسکی ٹانگوں پر

سے کمبل بھی ہٹا ہوا تھا اُس کی سڈول رانیں ننگی تھی اُس کی ٹانگوں پر بال

نام کی کوئی چیز نہیں تھی بلکل صاف گوری ٹانگیں تھییں عاطف کا لن اُس

کی ٹانگوں کو دیکھ کر ہی کھڑا ہو گیا۔
عاطف نے پہلی بار روشنی میں شمع کی رانوں اور ٹانگوں کو ننگا دیکھا تھا ۔

وہ بہت خوبصورت تھی عاطف کے دل میں آیا کے کیوں نے اُس کی گانڈ

سے کمبل ہٹا کر اُس کو بھی دیکھا جائے لکین پھر وہ اپنی اس سوچ پر خود

ہی شرمندہ ہو گیا جب اُس کو یاد آیا کے شمع کون ہے اور اُس کا اُسے کیا

رشتہ تھا۔
عاطف نے اپنے کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔جب وہ ناشتے کا

آرڈر دے کر واپس آیا تو شمع بیڈ پر نہیں تھی اور واش روم میں پانی گرنے

کی آواز آ رہی تھی اس کا مطلب وہ نہا رہی تھی،
خیر اُن دونوں نے کچھ دیر میں ناشتہ کیا اور حسب معمول گھومنے کے لیے

نکل گے لکین کل کی نسبت آج اُن کے درمیان کافی باتیں ہو رہی تھیں۔
پورا دن وہ مختلف جہگوں پر گھونے پھرنے کے بعد واپس ہوٹل آ گے رات

کے دس بج رہے تھے اور آج اُن دونوں میں سے کوئی بھی وقت ضائع نہیں

کرنا چاہتا تھا اس لیے کچھ ہی دیر میں وہ کپڑے بدل کر بتی بجا کر ایک

دوسر ے کی بانہوں میں تھے۔
وہ ایک دوسرے کے منہ میں اپنا منہ ڈال کر ایک دوسے کی زبانوں کو اور

ہونٹوں کو چوس رہے تھے ۔ عاطف اپنا ہاتھ اُس کے جسم پر گھوما رہا تھا

اور اُس کی گانڈ سے لے کر اُس کے بیک نیک تک پھیر رہا تھا ۔ شمع نے بھی

اپنے بازو اُس کے گرد جھکڑے ہوئے تھے اور ایک ہاتھ عاطف کے سر کے

پیچھے اُس کے بالوں میں ڈالے اُس کے بالوں میں گھوما رہی تھی ۔
عاطف نے اپنے ہاتھ کو شمع کی کمیض کے اندر ڈالا اور اُس کی ننگی کمر

پر پھیرنے لگا شمع کا جسم بہت نرم ملائم تھا ۔ عاطف اُس کی کمر پر ہاتھ کو

اُپر لے گیا اُس نے پہلی بار شمع کے ننگے جسم کو چھوا تھا اُس کو بہت

اچھا لگ رہا تھا ۔ وہ اپنے ہاتھ کے ذریعے محسوس کر رہا تھا کے شمع کا

جسم کیسا ہے۔
اُس نے پھر اپنا ہاتھ نیچے کی طرف لایا اور شمع کی شلوار میں گھسانے لگا

شمع کی شلوار ناڑے والی تھی اس لیے اُس کو ہاتھ اندر نہیں جا رہا تھا۔
اُسی وقت شمع نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کی طرف کیا اور اپنا ناڑا کھول دیا اُس

کی شلوار ڈھیلی ہو گئی اور عاطف کا ہاتھ اندر گھس گیا۔
عاطف کو شمع کی یہ خرکت کافی اچھی لگی اُس کو شمع کا یوں ساتھ دینا

بھی بہت اچھا لگا تھا ۔ وہ سوچنے لگا کے عالیہ کے ساتھ سکسس کرتے

ہوئے جب وہ کچھ کرنے لگتا تھا عالیہ کروا تو لیتی تھی لکین پہلے ہزار

نخرے کرتی تھی، پھر جا کر مانتی تھی اور زیادہ تر کام عاطف کو خود ہی

کرنے پڑتے تھے لکین شمع اُس کے ہر کام میں اُس کا ساتھ دیتی تھی۔
عاطف نے اپنا ہاتھ شمع کی گانڈ پر شلوار کے اندر سے رکھ دیا ۔ شمع کی

گانڈ بہت بڑی اور نرم تھی عاطف اُس کے بڑے بڑے چوھتڑوں کو ہاتھ سے

دبانے لگا۔
شمع کی کسنگ اور سانسوں میں تیزی آنے لگی تھی۔
عاطف نے پھر اپنی ایک انگلی شمع کی گانڈ کی لکیر میں ڈال دی اور اُس کو

محسوس کرنے لگا جب عاطف کی انگلی شمع کے گانڈ کے سوراخ پر لگی تو

عاطف نے محسوس کیا کے شمع کے گانڈ کا سوراخ کافی بڑا تھا اور اندر کی

طرف تھا یعنی کافی گہرا تھا۔
عاطف اپنی انگلی کو اُس کے سوراخ پر پھیرنے لگا۔ شمع نے عاطف کے سر

کو مظبوطی سے تھام لیا تھا ۔ جس سے عاطف کو اندازا ہو گیا تھا کے شمع

کو اُس کی انگلی اپنی گانڈ پر اچھی لگی تھی۔
عاطف اپنی انگلی کو اُس کی گانڈ کے سوراخ کے گرد گھماتا رہا اور شمع کی

سانسوں سے اُس کی بےچینی کا اندازہ ہو رہا تھا وہ اُس کا منہ تو عاطف کے

منہ کے ساتھ جڑا ہوا تھا لکین اُس کی ناک سے نکلنے والی تیز سانسوں کی

آواز پورے کمرے میں کھونج رہی تھی۔
عاطف نے اپنا منہ اُس کے منہ سے ہٹا لیا شمع نے لمبی لمبی سانسیں لینا

شروع کر دییں عاطف کے لیے شمع کا یہ ریکشن کچھ عجیب تھا ۔ اُس کو یہ

تو معلوم تھا کے کچھ عورتوں کو چوت سے زیادہ گانڈ میں مزا آتا یے لکین

ایسے صرف
عاطف کی ایک انگلی سے شمع کی بے چین ہو جانا سچ میں عجیب تھا ۔
عاطف نے اپنا منہ شمع کے کان کے قریب لے جاکر بولا ۔
کیا ہوا اچھا لگ رہا ۔
شمع نے اپنی تیز سانسوں کو سھنبالتے ہوئے بولا۔
ہاں۔
عاطف نے کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
آپ اُلٹا لیٹ جاو۔
شمع نے اپنی رُخ بدلا اور وہ اُلٹاہو کر لیٹ گئی ۔ عاطف اپنی جگہ سے اُٹھا

اُس نے کمبل کو ایک طرف کر دیا اور پھر وہ شمع کی ٹاننگوں کے درمیان

میں آ کر بیٹھ گیا۔
اُس نے شمع کی شلوار کو اُس کی گانڈ سے نیچے کر دیا اور شمع کی کمیض

کو اُپر کر دیا باہر بلکنی کی بتی جل رہی تھی عاطف کو بلکل صاف تو نہیں

نظر آ رہا تھا لکین اُس کی روشنی میں وہ کچھ کچھ دیکھ سکتا تھا۔
شمع کی بڑی اُپر کو اُٹھی ہوئی گانڈ عاطف کے سامنے تھی اُس نے اپناہاتھ

اُس پر رکھا اور اُس کے ایک چوھتڑ کو دبانے لگا پھر اُس نے اپنا دوسرا ہاتھ

شمع کے دوسرے چوھتڑ پر رکھ دیا وہ اپنی موٹھیوں میں اُن کو دبا رہا تھا

۔شمع تکیے پر اپنا منہ ایک طرف کو رکھ کر لیٹی تھی ۔
عاطف نے ایک ہاتھ کو ہٹا کر ایک ہلکا سا تھپڑ شمع کے ہپ پر مارا شمع کے

منہ سے سسکاری نکل گئی عاطف اب تھوڑی دیر اُس کے دبانے کے بعد ایک

تھپڑ مارتا شمع ہر ہر تھپڑ پر بے چینی سے سسکارتی تھی۔
عاطف کو شمع کا حساس پوائنٹ مل گیا تھا ۔ عاطف نے کہیں پڑھا تھا کے

ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت اُس کے جسم میں ایک ایسی جگہ ہوتی ہے

جس پر چھونے سے اُس کو جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ شمع کی وہ جگہ اُس

کی گانڈ تھی۔
چوھتٹر کیوں کے جسم کا سخت حصہ ہیں انسان اُن کے سہارے بیٹھتا ہے

اور وہ کافی سخت ہوتے ہیں اس لیے اُن پر چھونے سے زیادہ مارنا اثر انداز

ہوتا ہے ۔
عاطف اُن کو کافی دیر تک ایسے ہی تھہڑ مارتا رہا اور موٹھیوں میں دباتا رہا

۔
پھر اُس نے اُس کے دونوں چوھتڑوں کے ہاتھوں کی مدد سے کھولا اور اُس

کی گانڈ کا سوراخ سامنے کیا اُس کو نظر نہیں آیا لیکن اُس نے انگھوٹے کی

مدد سے چھو کر پتہ کیا کے سوراخ کدھر ہے۔
عاطف نے اُس کے سوراخ پر تھوکا اور پھر اپنے ایک ہاتھ کی انگلی اُس نے

سوراخ پر رکھی اور دبا دی انگلی تھوک کو ساتھ لیتے ہوئے گانڈ کے سوراخ

میں گھس گئی شمع کی گانڈ کا سوراخ کافی بڑا اور کھلا تھا ۔
انگلی آسانی سے اندر گھس گئی تھی اور جیسے ہی انگلی اندر گئی شمع کے

منہ سے ایک سسکاری نکلی ۔اُس نے اپنے ہاتھوں میں تکیے ہو بینچ لیا تھا۔
عاطف تھوری دیر تک انگلی کو اندر باہر کرتا رہا شمع کی سانسوں کی آواز

پورے کمرے میں گھونج رہی تھی،
پھر عاطف اُٹھا اُس نے اپنا پاجامہ اُتارا اور واپس شمع کے اُپر آگیا ۔ اُس نے

اپنے ہاتھوں کو شمع کے اطراف میں بیڈ پر رکھا اور اپنا لن شمع کی گانڈ

کے اُپر رکھ دیا ۔
پھر وہ ایسے ہی بغیر اندر ڈالے شمع پر لیٹ گیا اور ہلنے لگا اُس نے ایک

ہاتھ سے شمع کی گردن سے بالوں کو ہٹایا اور اُس کی گردن پر چومنے لگا

شمع نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اُٹھا کر پیچھے سے اُپر کیا اور عاطف کی

کمر کو تھام لیا ۔
اچانک شمع نے زور زور سے سانسیں لینا شروع کر دی اور اُس نے اپنے

ہاتھوں سے عاطف کی کمر کو مظبوطی سے پکڑ لیا۔ اُس کے منہ سے اُونچی

آواز میں سسکاریاں نکلنے لگیں وہ چھوٹ رہی تھی وہ عاطف کے نیچیے

ایسے تڑپنے لگی جیسے کوئی مچھلی پانی کے باہر تڑپتی ہے پھر کچھ دیر

بعد وہ رُک گئی اُس کی سانسیں اب بھی تیز تھیں۔
عاطف اُس کے اُپر سے ایک طرف گر گیا۔ شمع کچھ دیر تک ایسے ہی پڑی

رہی پھر جب تھوڑی سانس بحال ہوئی تو اُس نے اپنا رُخ بدل کر عاطف کی

طرف کیا اور اپنے ہونٹ عاطف کے ہو نٹوں پر رکھ دئیے۔
ایک لمبی کس کرنے کے بعد اُس نے اپنے ہونٹ ہٹائے اور بولی۔
تم نے اندر کیوں نہیں ڈالا۔
عاطف بولا۔
میں نے سنا ہے پیچھے اندر کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے میں نے

جب دیکھا کے آپ کا حساس پوئینٹ اُپ کے پیچھے ہے تو میں نے اندر ڈالے

بغیر ہی یہ سب کیا۔
شمع بولی۔
باقر نے کافی ریسرچ کی تھی وہ تو بولتا ہے نکاح نہیں ٹوٹتا ۔ ہاں بیوی کا

رضامند ہونا ضروری ہے۔
عاطف بولا۔
پتہ نہیں میں نے تو یہی سنا ہے،
شمع بولی ۔
تم نے اندر نہیں ڈالا لکین مجھے بہت مزا دیا ۔ شکرایہ
پھر وہ کچھ دیر رُک کر بولی ۔
اب میری باری ۔ اب میں تم کو مزا دوں گی۔
پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور عاطف کے اُپر آکر بیٹھ گئی اُس نے عاطف

کے لن کو جو ابھی بھی فل تنا ہوا تھا ہاتھ میں لیا اور اپنی چوت اُس پر رکھ

کر اندر لے لیا ۔
پھر واقع ہی جیسے اُس نے گھما گھما کر اور جس جس انداز سے اُپر نیچے

ہو کر عاطف کو مزا دیا عاطف نے زندگی میں کبھی سکسس کا اتنا مزا نہیں

لیا تھا ۔
پانچواں دن

    یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا۔
    ٹی وی پر یہ رومنٹک اور سکسی گانا چل رہا تھا۔شمع اور عاطف بیڈ پر 

لیٹے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔شمع اپنا سر عاطف کے سینے پر رکھے 

لیٹی تھی۔اُس کا ایک ہاتھ عاطف کے پاجامے کے اندر تھا جس میں اُس نے 

عاطف کا لن پکڑا ہوا تھا اور اُس کے ساتھ کھیل رہی تھی عاطف اُس کے 

بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔
    شمع کے چہرے پر ایک شرارتی مسکرہٹ آئی اور پھر وہ بولی۔
    عاطف!
    کیاہوا۔ عاطف نے جواب دیا
    ایک بات پوچھو۔ شمع کے چہرے پر وہی شرارتی مسکراہٹ تھی
    ہاں پوچھو۔ عاطف بولا
    تم کو میری لینے میں زیادہ مزا آتا ہے یا اپنی گرل فرینڈ کی۔ شمع نے 

مسکراتے ہوئے پوچھا اُس کا سر ابھی بھی عاطف کے سینے پر ہی تھا۔
    عاطف اُس کی بات سن کر چونک پڑھا اُس کو اس طرح کے جملے کی 

اُمید نہیں تھی ۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے شمع اسطرح کھل کر 

ایسی بات اُس کو پوچھے گی ۔
    ک ک کیا مظلب ۔ اُس نے اٹک آٹک کر پوچھا
    کیا ہوا شرما کیوں رہے ہو ۔ سیدھی سی بات تو پوچھی ہے۔ تم کو میری 

چوت مارنے کا زیادہ مزا آتا ہے یا عالیہ کی۔ شمع بولی
    شمع کے اس جواب نے عاطف کو پہلے سے بھی زیادہ خیران کر دیا۔ اُس 

کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا جواب دے ۔ ایسی بات تو کبھی اُس کی کسی 

گرل فرینڈ نے بھی اسطرح ڈیریکٹ نہیں کی تھی۔
    شمع کے ہاتھ میں اُس کا لن ایکڑنا شروع ہو گیا تھا۔ شمع کے چہرے پر 

شرارتی مسکراہٹ بڑھ گئی ۔ وہ عاطف کی خالت کا مزا لے رہی تھی۔جب 

عاطف نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو وہ بولی۔
    کیا ہوا بول کیوں نہیں رہے ہو۔
    عاطف بولا۔ کیابولو
    میری بات کو جواب دو نہ تم کو میری لینے میں زیادہ مزا آتا ہے ہا 

عالیہ کی۔ شمع نے کہا۔
    ویسے شمع خود بھی خیران تھی کے کیسے وہ یہ سب اتنی آسانی سے 

بول رہی تھی اسطرح کی بات آج تک اُس نے باقر سے کبھی نہیں کی تھی۔
    عاطف اب تھوڑا سنمبھل گیا تھا وہ بولا۔
    تمھاری۔
    کیوں شمع نے پوچھا
    اب اس کا میں کیا جواب دوں بس تمھاری لینے کا زیادہ مزا آتا ہے۔ 

عاطف نے آہستہ آواز میں بولا
    اچھا چلو یہ بتائو اُس کی چوت میں میری چوت میں تم کو کیا فرق 

محسوس ہوا ہے۔ شمع نے پوچھا
    یہ تم کسطرح کے سوال کر رہی ہو۔ عاطف بولا
    کیوں کیا ہوا شرم آرہی ہے۔ شمع نے ہنستے ہوئے پوچھا
    نہیں پر مجھے اچھا نہیں لگ رہا اسطرح بات کرنا تمھارے ساتھ۔ عاطف 

نے جواب دیا
    اچھا نہیں لگ رہا تو یہ کیوں کھڑا ہو رہا ہے۔ شمع نے اُس کے لن کو 

دباتے ہوئے پوچھا
    نہیں میرا مطلب کے ایزی فیل نہیں کر رہا میں یہ سب تمھارےمنہ سے 

سن کر۔ عاطف نے جواب دیا
    اچھا چلو نہین بولتی اب۔ شمع نے ہنس کر کہا۔
    پھر وہ دونوں کچھ دیر تک جپ چاپ لیٹے رہے کچھ دیربعد شمع نے اپنا 

منہ اُپر کیا اور عاطف کی گردن کو چومتے ہو ئے اُس کے کانوں کے پاس 

اپنا منہ لے جا کر بولی۔
    تم کو لن چسوانا اچھا لگتا ہے کیا۔
    عاطف نے سر ہلا دیا
    کیا میں چوسو۔ شمع نے اُس کے کان کے قریب اپنے ہونٹ لے جاکر اُس 

کے کان میں آہستہ سے بولا۔
    ہاں ۔ عاطف نے صرف اتنا ہی کہا ۔ عاطف کو شمع کا انداز مدہوش کر 

رہا تھا
    شمع نے اُس کے گال کو چو ما پھر اُس نے اپنی زبان اُس کی گردن پر 

پھیرنا شروع کر دی۔ پھر اُس نے پوچھا
    پورا منہ میں لوں یا صرف ٹوپی
    پورا ۔ عاطف کی سانسوں کی رفتار بڑھ گئی تھی
    اچھا ۔ شمع نے اُس کو بولا اور پھر اُس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں 

لیا اور چوسنے لگی۔
    پھر اُس نے اپنا منہ اُس کے ہونٹوں سے اُٹھایا اور نیچے اُس کی ٹانگوں 

پر آگئی اور اُس کا پاجامہ تھوڑا نیچھے کر دیا اور اُس کے کھڑے لن کو ہاتھ 

میں لے لیا اور اُس کو ہاتھ میں لے کر مساج کرنے لگی وہ لن کی پوری 

لمبائی کو ہاتھ میں لے کر مساج کر رہی تھی۔ وہ جس طرح سے ہاتھ چلا رہی 

تھی عاطف مزے میں پاگل ہو رہا تھا ۔ پھر شمع نے اپنا منہ نیچے کیا اور 

اپنی زبان نکال کر اُس نے لن کی ٹوپی کے نیچے والے حصے پر پھیرنی 

شروع کر دی ۔ عاطف کے لن سے ایک قطرہ نکل آیا تھا ۔ شمع نے اپنی زبان 

اُس قطرے پر پھیری اور اُس کو چاٹ لیا ۔ عاطف شمع کا یہ روپ دیکھ کر 

خیران تھا ۔ اُس کو لگ ہی نہیں رہا تھا کے یہ وہی شمع تھی جس کو وہ 

پچھلے دس سالوں سے گھر کے کاموں میں ہر وقت اُلجھے ہوئے دیکھتا تھا 

وہ عاطف کو کبھی بھی اُس کو دیکھ کر ایسا نہیں لگا تھا کے شمع کے اندر 

ایک ایسی عورت بھی چھپی ہے۔
    شمع اُس کے لن کو نیچے سے لے کر ٹوپی تک اپنی زبان سے چاٹ رہی 

تھی۔
    پھر اُس نے سر اُٹھا کر پوچھا ۔
    مزا آرہا ہے یا نہیں۔
    عاطف نے اکھڑتی سانسوں کے درمیان بولا
    آج تو پاگل کر رہی ہو تم
    شمع نے ایک بار پھر منہ نیچے کر لیا اس بار اُ س نے لن کو منہ میں 

لے لیا عاطف کے ہاتھ اُس کے سر پر آگئے تھے اور وہ بہت نرمی کے ساتھ 

اُس کے سر کو اپنے پر دبا رہا تھا ۔ شمع کچھ دیر تک اُس کی ٹوپی منہ میں 

لے کر چوستی رہی ۔ پھر اُس نے پورا لن منہ میں لے کر منہ کو اُپر نیچے 

کرنا شروع کر دیا ۔
    عاطف اُس کے منہ کی نرمی اور گرمی اہنے لن پر محسوس کر رہا تھا 

اور جس طرح سے وہ اپنا منہ اُس کے لن پر اُپر نیچے کر رہی تھی وہ بھی 

عاطف کے لیے بہت ہی مزے کا باعث تھا۔ عاطف کی یہ پہلی بار نہیں تھی 

جب کوئی عورت اُس کے لن کو چوس رہی تھی اُس کی زندگی میں ایسا بہت 

بار ہو چکا تھا لکین اج ایک بار پھر وہ شمع کا فین ہو گیا تھا کیوں کے شمع 

کے منہ میں اپنا لن دے کر جو مزا مل رہا تھا عاطف کو اج تک نہیں ملا تھا ۔ 

شاید یہ وہی نفسیاتی وجہ تھی یا شمع کے چوسنے کا طریقہ لکین مزا بہت 

ہی زیادہ تھا
    پھر کافی دیر تک شمع اُس کے لن کو منہ میں لیا چوستی رہی وہ مختلف 

طریقوں سے منہ کو گھوما گھوما کر اُس کی ٹوپی کے گرد اپنے ہونٹوں کو 

چلا رہی تھی ۔
    میں چھوٹنے والا ہوں۔ اچانک عاطف نے اُس کو بولا
    شمع نے اس کے لن سے منہ ہٹا لیا اور ہاتھ میں لے کر اُس کو ہلانے 

لگی اور اُس کا منہ لن کے سامنے ہی تھا ۔ پھر عاطف کے لن سے منی نکل 

کر اُس کے منہ کے اُپر گرنے لگی اُس کے لن سے منی کے فوارے شمع کے 

گالوں پر اور بالوں پر گر رہے تھے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بابا امی کب واپس آ رہی ہیں۔ باقر کی بیٹی نے پوچھا
    جلدی بیٹا بس ایک دو دن میں آ جائیں گیں ۔ باقر نے اُس کو پیار کرتے 

ہوئے بولا
    بابا امی سے فون پر بات کروں میں۔ اُس کی بیٹی نے پوچھا
    ہاں کر لو بیٹا۔ باقر بولا اور پھر اُس نے جیب سے فون نکالا اور شمع 

کے نمبر ملا دیا ۔ نمبر بند جا رہا تھا ۔
    بیٹا امی کا فون ابھی بند ہے بعد میں بات کرواتا ہوں ۔ باقر نے بیٹی کو 

بولا تو وہ سر ہلاتی ہوئی چلی گئی باقر سوچنے لگا کے شام کے اس وقت 

شمع کا فون کیوں بند ہے۔

No comments:

Post a Comment